Orhan

Add To collaction

حدت عشق

حدت عشق
از قلم حبہ شیخ
قسط نمبر2

ماما میرا لاڈلہ کہاں یے. سارہ آمنہ بیگم سے ارحم شاہ کے بیٹے کے بارے میں پوچھتے ہوئے. بیٹے وہ شاید خبیب کے روم میں ہے اسے جا کر لے آؤ ورنہ خبیب آکر غصہ کرے گا 
اوکے مما وہ چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتی خبیب شاہ کے روم تک پہنچی اور 
شاہ میر شاہ کو آواز دینے لگی 
شاہ میر where are you
الے شالا پھپھو میں نہہا پل ہوں (ارے سارہ پھپھو میں یہاں پر ہوں) وہ سارہ کو صوفہ کے پیچھے سے نکل کر آ تے ہوئے بولا
میری جان یہاں آؤ پھپھو جانی کے پاس سارہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر شاہ میر کو بلا نے لگی 
وہ بھاگتے ہوئے آیا اور سارہ کی گود میں چڑھ گیا
سارہ نے باری باری اس کے دونوں گال چومے اور ہستے ہوئے دوسرے پورشن کی طرف آ گئی یہاں آتے ہی اس کا سامنہ ائمہ شاہ سے ھوا اور ان کے گرد بازو حمائل کر کے سلام کیا جس کا انہوں نے خشدلی سے جواب دیا اور ساتھ ہی ناراضگی دکھاتے ہوئے بولی 
بیٹا جی کافی دنوں بعد چکر لگا یا ہے آپ نے
اووووووو میری پیاری چھوٹی ماں!!!!!!
اپکو پتا ہے کل ہی میں ایگزام سے فری ہوئی ہوں اب آپ فکر نہ کریں اکثر میں یہں پائی جاؤں گی سارہ اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بولی 
ویسے چھوٹی ماں آپ یہ کس کے لیے بنا رہی ہیں سارہ کوفی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
بیٹا یہ شاہ ذل کے لیے بنا رہی ہوں 
آؤ تو کیا آج شاہ ذل بھائی آفس نہیں گئے  سارہ آئمہ سے پوچھنے لگی  
بیٹا گیا تھا وہ آفس پر شا ید کچھ طبیعت خراب تھی تو جلدی آ گیا
صحیح سارہ نے کہا اور دل ہی دل میں سوچنے لگی آج تو یہ کھڑوس یہں ہے چل سارہ بیٹا یہاں سے نکل ورنہ ہٹلر آ گیا تو ڈانٹ پکی اور دل ہی دل میں یہاں سے جانے کی ترغیب سوچنے لگی 
کیا ہوا سارہ بیٹا کوئی مسئلہ ہے آئمہ شاہ نے پریشانی سے پوچھا
نہ۔نہ۔نہیں تو چھوٹی ماں سارہ نے ہڑبڑا کر جواب دیا
اچھا چلو پھر ایسا کرو کہ یہ کافی جا کر شاہ ذل کو دے آو وہ ویٹ کر رہا ہو گا
پر میں سارہ منمنائی
کیا ہوا سارہ بیٹا کوئی پریشانی ہے تو بتاو آئمہ شاہ نے فکرمندی سے پوچھا
نہیں ماں دے میں دے کر آتی ہوں سارہ بمشکل نسکرائی اور شاہ ذل کے روم کی طرف چل دی
اور دل ہی دل میں 
 آل تو جلال تو آئی بلا تو ٹال تو
اللہ جی آج ان کھڑوس سے بچا لینا 
ایسا نہیں تھا کہ شاہ ذل ڈانٹتا تھا بس اپنی خاموش طبیعت کی وجہ سے بہت کم لوگوں سے فرینک ہوتا تھا 
سارہ دل ہی دل میں بڑبڑائی اور روم کا دروازہ نوک کیا جواب نہ پا کر دھکا دیا تو دروازہ کھلتا چلا گیا
اندر قدم رکھتے ہی اندھیرے نے استقبال کیا ہاتھ بڑہا کر سوئچ بورڈ سے لائٹ آن کی تو کمرہ روشنیوں سے نہاگیا اندر داخل ہوتے ہی ادھر ادھر نظری دوڑائی چلو اچھا  ہے ہٹلر نہیں ہے اور ایسا کرتی ہوں یہ کافی یہاں رکھ کر جلدی چلی جاتی ہوں سارہ من میں خوش ہوتے ہوئے سوچنے لگی ابھی وہ دروازے تک ہی پہنچی تھی کہ شاہ ذل کی آواز کانوں سے ٹکرائی
تم یہاں شاہ ذل نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی شاہ ذل بھائی وہ چھوٹی ماں نے آپ کے لیے کافی بھیجی تھی سارہ نے  جلدی سے بات مکمل کی کہ کہیں ڈانٹ ہی نہ دے
ہمممممممم۔۔۔۔   شاہ ذل نے گہرا سانس خارج کیا اور سارہ کو گہری نظروں سے دیکھنے لگا لائٹ پنک کلر کے بےبی فراک میں بے حد حسین لگ رہی تھی اور سے متضاد سیاہ تل اس کے حسن میں اضافہ کر رہا تھا.. 
ادھر آو شاہ ذل نے حکم دیا سارہ حکم سنتے ہی گھبرانے لگی اور ننھے ننھے قدم اٹھاتی شاہ ذل سے دور جا کر کھڑی ہو گئی
اس کی اس حرکت پر شاہ ذل کے لب مسکرائے جسے وہ بروقت چھپا گیا 
اور ایک جھٹکے سے اپنا اور اس کا فاصلہ ختم کیا. سارہ تو شاہ ذل کی اس حرکت پر گھبرا گئی اور ڈرتے ہوئے بولی
ش۔ش۔شاہ شاہ ذل بھائی ی۔ یہ ۔۔ک۔۔ک ۔کیا کر رہے ہیں سارہ نے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے بات مکمل کی
شاہ  ذل کو جہاں اس 
کا گھبرایا گھبرایا روپ پسند آیا وہیں وہ اس کے بھائی کہنے پر جی بھر کے بدمزہ ہوا 
تم شاہ ذل نے اپنی شہادت کی انگلی اس کی طرف کرتے ہوئے کہا 
تم مجھے بھائی نہ بولا کرو  قسم سے زہر لگتی ہو
سارہ نا سمجھی سے شاہ ذل کی طرف دیکھنے لگی
اور معصومیت سے بولی کیوں ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
شاہ ذل بھائی؟؟؟؟؟؟؟؟؟!!!؛؛؛؛؛؛
کیونکہ میں تمہارا بھائی نہیں ہوں شاہ ذل نے چڑتے ہوئے جواب دیا
سارہ کی ابھی بھی  سوئی وہیں اٹکی تھی 
آپ مجھ سے پورے آٹھ سال بڑے ہو تو بھائی ہی بولںوں گی نہ وہ آپنا اور اس کی عمر کا اپنی انگلیوں پر موازنہ کرنے لگی..
اس کے اس انداز پر شاہ ذل کو  جی بھر کے پیار آیا⁦
ہاں اس کیوں کا جواب بعد میں دوں گا بس اگلی دفاع بھائی بولا نہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا سمجھی وہ اسے آخری بار ورن کرتے ہوئے بولا جاؤ اب اس سے پہلے کوئی گستاخی ہو جائے وہ آپنا اور اس کے درمیان کا فاصلہ قائم کرتے ہوئے جانے کا اشارہ کیا اور سارہ جانے کا سنتے ہی وہاں سے نکلتی چلی گئی اور شاہ ذل سرجھٹک کرسر پر ھاتھ پھیرتے ہوئے control shah  کہتے ہوئے بیڈ پر آرام کرنے کی غرض سےلیٹ گیا
آج لبابہ کا یونی کا فرسٹ سے ہے اور یہ لڑکی آج بھی لیٹ ہو گی  فاطمہ بیگم اپنی لاڈلی بیٹی کی شکایت لگاتے ہوئے بولی 
اتنے میں وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے آئی شارٹ ڈارک پنک کلر کے فراک میں وہ سر پر سٹولر لے اور لبوں پر پنک کلر کی ہی گلوز لگائے اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ بےحد حسین لگ رہی تھی 
فاطمہ بیگم نے اپنی لاڈلی بیٹی کی دل میں نظر اتری اور ناشتہ کا کہنے لگی!!!!!!!!!!! نہیں مما وہیں جا کر کھا لوں گی ورنہ سارہ مجھے کچا چبا جائے گی وہ ہنستے ہوئے اپنی ماں کو اللہ حافظ کہ کر روانہ ہو گئی
وہ یونی پہنچی تو سارہ اسے غصے میں ٹہلتی نظر آئی لبابہ نے اپنی مسکراہٹ دبائی اور پیچھے سے جاکر اس کے گرد بازو حمائل کیے جسے بروقت سارہ نے جھٹک دیے 
یہ انتسارہ شاہ کہ ناراض ہو نے کا طریقہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔
لبابہ نے مسکراہٹ دبائی اور سارہ کہ سامنے کان پکڑ کر کھڑی ہو گئی جسے سارہ نے ہٹا دیا اور اسے اپنے گلے لگایا 
دونوں کی دوستی ہی ایسی تھی دونوں زیادہ دیر تک ایک دوسرے سے ناراض نہیں ہو سکتی تھی سارہ اور لبابہ کی دوستی کالج کے زمانے سے تھی جو ابھی تک برقرار ہے 
اچھا چل اب جلدی سے ورنہ آج پہلے دن ہی ہی لیٹ ہو جائیں  گے سارہ  لبابہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی
دونوں جلدی جلدی کلاس کی طرف قدم بڑھا رہی تھی کہ راستے میں ایک لڑکی دونوں کے پاس آئی اور کہا
آپ دونوں کو سر عاطف بلا رہے ہیں 
ہیںںںںںںںںںںںںں ہمیں دونوں نے حیرانگی سے پوچھا معا کچھ غلط سن لیا ہو
جی آپ دونوں کو رمشاء نے اطمینان سے جواب دیا
(سامنے کھڑی لڑکی کا نام رمشاء تھا ) 
پر ہم تو کسی سر عاطف کو نہیں جانتے سارہ نے پریشان ہوتے ہوئے رمشاء سے کہا
مجھے نہیں پتا انگلش ڈیپارٹمنٹ کے سر ہیں شاید کوئی ڈاکومنٹس کا مسئلہ ہے
اواچھا دونوں ہاں میں سر ہلاتی سر عاطف کے روم کے باہر جا کر کھڑی ہو گئی اور دل میں جتنی دعائیں آتی تھیں پڑھ کر داخل ہونے کی اجازت مانگی
May I come in sir!!
yes come in!
جواب ملتے ہی اندر آئی اور اور خاموشی سے کھڑی ہو کر اپنی انگلیاں مروڑرنے لگی سر جو اپنے کام میں مصروف تھے کوئی آواز نہ پاکر متوجہ ہوئے
جی بیٹا کیا کام ہے 
سر عاطف اپنے شفیق لہجے میں بولے 
سسسسسر۔۔ سارہ نے ڈرتے ہوئے مخاطب کیا 
سر آپ نے بلایا تھا ہمیں لبابہ نے جلدی سے بات مکمل کی معا روم سے ہی نہ نکال دے 
میں نے ؟؟؟؟ سر عاطف نے شہادت کی انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا
جی سےمر رمشاء نے کہا کہ آپ نے بلایا لبابہ نے جلدی سے کہا 
سر پوری بات سنتے ہی مسکرانے لگے اور اپنے شفیق لہجے میں بولے
بیٹا ج شاید کسی نے آپ کے ساتھ مذاق کیا ہے اپنی بات مکمل کرتے ہی وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئے
اور وہ دونوں سوری بولتے ہی وہاں سے نکلی اور رمشاء کو ڈھونڈنے لگی وہ رہی رمشاء سارہ نے انگلی کی طرف اشارہ کیا دونوں جلدی سے پاس پہنچی اور رمشاء کو مخاطب کیا
رمشاء  سارہ نے غصے میں پکارا 
رمشاء دونوں کو دیکھ کر ہنسنے لگی اور دونوں کا دل چاہا کہ سامنے کھڑے اس چڑیل کو شوٹ کر دے پر دونوں بنا کچھ کہے پائوں پٹختی وہاں سے واک آؤٹ کر گئی 
اتنے میں یونی کا ٹائم آف ہو گیا سارہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ روانہ ہو گئی جبکہ لبابہ بس کے انتظار میں سڑک کے کنارے کھڑی ہو گئی. 

   1
0 Comments